جو کہو تم سو ہے بجا صاحب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو کہو تم سو ہے بجا صاحب
by میر تقی میر

جو کہو تم سو ہے بجا صاحب
ہم برے ہی سہی بھلا صاحب

سادہ ذہنی میں نکتہ چیں تھے تم
اب تو ہیں حرف آشنا صاحب

نہ دیا رحم ٹک بتوں کے تئیں
کیا کیا ہائے یہ خدا صاحب

بندگی ایک اپنی کیا کم ہے
اور کچھ تم سے کہیے کیا صاحب

مہر افزا ہے منہ تمہارا ہی
کچھ غضب تو نہیں ہوا صاحب

خط کے پھٹنے کا تم سے کیا شکوہ
اپنے طالع کا یہ لکھا صاحب

پھر گئیں آنکھیں تم نہ آن پھرے
دیکھا تم کو بھی واہ وا صاحب

شوق رخ یاد لب غم دیدار
جی میں کیا کیا مرے رہا صاحب

بھول جانا نہیں غلام کا خوب
یاد خاطر رہے مرا صاحب

کن نے سن شعر میرؔ یہ نہ کہا
کہیو پھر ہائے کیا کہا صاحب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse