جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو
by میر تقی میر

جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو
کوئی تو چاہیے جی بھی نیاز کرنے کو

نہ دیکھو غنچۂ نرگس کی اور کھلتے میں
جو دیکھو اس کی مژہ نیم باز کرنے کو

نہ سوئے نیند بھر اس تنگنا میں تا نہ موئے
کہ آہ جا نہ تھی پا کے دراز کرنے کو

جو بے دماغی یہی ہے تو بن چکی اپنی
دماغ چاہیے ہر اک سے ساز کرنے کو

وہ گرم ناز ہو تو خلق پر ترحم کر
پکارے آپ اجل احتراز کرنے کو

جو آنسو آویں تو پی جا کہ تا رہے پردہ
بلا ہے چشم تر افشائے راز کرنے کو

سمند ناز سے تیرے بہت ہے عرصہ تنگ
تنک تو ترک کر اس ترک تاز کرنے کو

بسان زر ہے مرا جسم زار سارا زرد
اثر تمام ہے دل کے گداز کرنے کو

ہنوز لڑکے ہو تم قدر میری کیا جانو
شعور چاہیے ہے امتیاز کرنے کو

اگرچہ گل بھی نمود اس کے رنگ کرتا ہے
ولیک چاہیے ہے منہ بھی ناز کرنے کو

زیادہ حد سے تھی تابوت میرؔ پر کثرت
ہوا نہ وقت مساعد نماز کرنے کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse