جوش گریہ یہ دم رخصت یار آئے نظر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوش گریہ یہ دم رخصت یار آئے نظر
by شیخ قلندر بخش جرات
296717جوش گریہ یہ دم رخصت یار آئے نظرشیخ قلندر بخش جرات

جوش گریہ یہ دم رخصت یار آئے نظر
ابر جوشاں کا بندھا جیسے کہ تار آئے نظر

رنگ گل زار جہاں گرچہ ہزار آئے نظر
چین پر دل کو کہاں تاکہ نہ یار آئے نظر

اپنا جب کوئے تصور میں گزار آئے نظر
جس طرف دیکھیں ادھر صورت یار آئے نظر

ہوں میں کس غیرت گل زار کا زخمی کہ مرے
ہر بن مو پہ گل زخم ہزار آئے نظر

بن پڑھے پھاڑ کے خط رکھ دے جو وہ روزن میں
جوں قلم سینہ مرا کیوں نہ فگار آئے نظر

ہم سخن جس سے نہ ہو سکیے پھر اس شوخ سے آہ!
اور کچھ بات کا کب دار و مدار آئے نظر

ہو جہاں جنبش لب کا بھی نہ یارا اے وائے
منہ کہاں یہ کہ جو واں بوس و کنار آئے نظر

ہم دل افروختہ واں جوں شرر سنگ ہیں آہ
نہ جہاں پیک صبا کا بھی گزار آئے نظر

سر بلندی جنہیں دے چرخ نہ دے چین انہیں
کہ بہ گردش مہ و خور لیل و نہار آئے نظر

جب کہ ہر روز کٹیں وعدے پہ گھڑیاں گنتے
کیوں نہ ہر دن ہمیں پھر روز شمار آئے نظر

اس کے محرم پہ بھبوکا سی جو دیکھوں چڑیا
کیوں نہ جوں طائر سیماب قرار آئے نظر

ہو بہ صد رنگ شگفتہ لب دریا پہ وہ باغ
ہر روش جس میں کہ بس لطف ہزار آئے نظر

چار سو نغمہ سرائی میں ہوں مرغان چمن
شاخ در شاخ عجائب گل و بار آئے نظر

موج دریا ادھر اٹکھیلی کی چالیں دکھلائے
اور ادھر رقص کناں باد بہار آئے نظر

ہووے اطراف سے گھنگھور گھٹا گھر آئی
کوند بجلی کی ہو اور پڑتی پھوار آئے نظر

اک طرف مور منڈیروں پہ کریں کیا کیا شور
اک طرف ابر میں بگلوں کی قطار آئے نظر

گردش جام ہو جوں گردش چشمان بتاں
ہاتھ میں مطرب سر خوش کے ستار آئے نظر

لب بہ لب سینہ بہ سینہ جسے چاہیں وہ ہو
گلشن زیست کی تب ہم کو بہار آئے نظر

عاشقانہ غزل اب پڑھ کوئی جرأتؔ تہہ دار
معنیٔ تازہ بھی تا یاروں کو یار آئے نظر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse