جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں
by میر تقی میر

جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں
گرچہ ہوتے ہیں بہت خوف و خطر پانی میں

ضبط گریہ نے جلایا ہے درونہ سارا
دل اچنبھا ہے کہ ہے سوختہ تر پانی میں

آب شمشیر قیامت ہے برندہ اس کی
یہ گوارائی نہیں پاتے ہیں ہر پانی میں

طبع دریا جو ہو آشفتہ تو پھر طوفاں ہے
آہ بالوں کو پراگندہ نہ کر پانی میں

غرق آب اشک سے ہوں لیک اڑا جاتا ہوں
جوں سمک گو کہ مرے ڈوبے ہیں پر پانی میں

مردم دیدۂ تر مردم آبی ہیں مگر
رہتے ہیں روز و شب و شام و سحر پانی میں

ہیئت آنکھوں کی نہیں وہ رہی روتے روتے
اب تو گرداب سے آتے ہیں نظر پانی میں

گریۂ شب سے بہت آنکھ ڈرے ہے میری
پاؤں رکتے ہی نہیں بار دگر پانی میں

فرط گریہ سے ہوا میرؔ تباہ اپنا جہاز
تختہ پارے گئے کیا جانوں کدھر پانی میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse