جس جگہ دور جام ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس جگہ دور جام ہوتا ہے
by میر تقی میر

جس جگہ دور جام ہوتا ہے
واں یہ عاجز مدام ہوتا ہے

ہم تو اک حرف کے نہیں ممنون
کیسا خط و پیام ہوتا ہے

تیغ ناکاموں پہ نہ ہر دم کھینچ
اک کرشمے میں کام ہوتا ہے

پوچھ مت آہ عاشقوں کی معاش
روز ان کا بھی شام ہوتا ہے

زخم بن غم بن اور غصہ بن
اپنا کھانا حرام ہوتا ہے

شیخ کی سی ہی شکل ہے شیطان
جس پہ شب احتلام ہوتا ہے

قتل کو میں کہا تو اٹھ بولا
آج کل صبح و شام ہوتا ہے

آخر آؤں گا نعش پر اب آہ
کہ یہ عاشق تمام ہوتا ہے

میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے پر
جیسے کوئی غلام ہوتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse