جز جرم عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جز جرم عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ
by میر تقی میر

جز جرم عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ
ناحق ہماری جان لی اچھے ہو واہ واہ

اب کیسا چاک چاک ہو دل اس کے ہجر میں
گتھواں تو لخت دل سے نکلتی ہے میری آہ

شام شب وصال ہوئی یاں کہ اس طرف
ہونے لگا طلوع ہی خورشید رو سیاہ

گزرا میں اس سلوک سے دیکھا نہ کر مجھے
برچھی سی لاگ جا ہے جگر میں تری نگاہ

دامان و جیب چاک خرابی و خستگی
ان سے ترے فراق میں ہم نے کیا نباہ

بیتابیوں کو سونپ نہ دینا کہیں مجھے
اے صبر میں نے آن کے لی ہے تری پناہ

خوں بستہ بارے رہنے لگی اب تو یہ مژہ
آنسو کی بوند جس سے ٹپکتی تھی گاہ گاہ

گل سے شگفتہ داغ دکھاتا ہوں تیرے تیں
گر موافقت کرے ہے تنک مجھ سے سال و ماہ

گر منع مجھ کو کرتے ہیں تیری گلی سے لوگ
کیوں کر نہ جاؤں مجھ کو تو مرنا ہے خوا مخواہ

ناحق الجھ پڑا ہے یہ مجھ سے طریق عشق
جاتا تھا میرؔ میں تو چلا اپنی راہ راہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse