جب ہم کلام ہم سے ہوتا ہے پان کھا کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب ہم کلام ہم سے ہوتا ہے پان کھا کر
by میر تقی میر

جب ہم کلام ہم سے ہوتا ہے پان کھا کر
کس رنگ سے کرے ہے باتیں چبا چبا کر

تھی جملہ تن لطافت عالم میں جاں کے ہم تو
مٹی میں اٹ گئے ہیں اس خاکداں میں آ کر

سعی و طلب بہت کی مطلب کے تئیں نہ پہنچے
ناچار اب جہاں سے بیٹھے ہیں ہاتھ اٹھا کر

غیرت یہ تھی کہ آیا اس سے جو میں خفا ہو
مرتے موا پہ ہرگز اودھر پھرا نہ جا کر

قدرت خدا کی سب میں خلع العذار آؤ
بیٹھو جو مجھ کنے تو پردے میں منہ چھپا کر

ارمان ہے جنہوں کو وے اب کریں محبت
ہم تو ہوئے پشیماں دل کے تئیں لگا کر

میں میرؔ ترک لے کر دنیا سے ہاتھ اٹھایا
درویش تو بھی تو ہے حق میں مرے دعا کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse