جب سے خط ہے سیاہ خال کی تھانگ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب سے خط ہے سیاہ خال کی تھانگ
by میر تقی میر

جب سے خط ہے سیاہ خال کی تھانگ
تب سے لٹتی ہے ہند چاروں دانگ

بات عمل کی چلی ہی جاتی ہے
ہے مگر اوج بن عنق کی ٹانگ

بن جو کچھ بن سکے جوانی میں
رات تو تھوڑی ہے بہت ہے سانگ

عشق کا شور کوئی چھپتا ہے
نالۂ عندلیب ہے گلبانگ

اس ذقن میں بھی سبزی ہے خط کی
دیکھو جیدھر کنوئیں پڑی ہے بھانگ

کس طرح ان سے کوئی گرم ملے
سیم تن پگھلے جاتے ہیں جوں رانگ

چلی جاتی ہے حسب قدر بلند
دور تک اس پہاڑ کی ہے ڈانگ

تفرہ باطل تھا طور پر اپنے
ورنہ جاتے یہ دوڑ ہم بھی پھلانگ

میں نے کیا اس غزل کو سہل کیا
قافیے ہی تھے اس کے اوٹ پٹانگ

میرؔ بندوں سے کام کب نکلا
مانگنا ہے جو کچھ خدا سے مانگ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse