جب سے اس بے وفا نے بال رکھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب سے اس بے وفا نے بال رکھے
by میر تقی میر

جب سے اس بے وفا نے بال رکھے
صید بندوں نے جال ڈال رکھے

ہاتھ کیا آوے وہ کمر ہے ہیچ
یوں کوئی جی میں کچھ خیال رکھے

رہرو راہ خوفناک عشق
چاہیے پاؤں کو سنبھال رکھے

پہنچے ہر اک نہ درد کو میرے
وہ ہی جانے جو ایسا حال رکھے

ایسے زر دوست ہو تو خیر ہے اب
ملیے اس سے جو کوئی مال رکھے

بحث ہے ناقصوں سے کاش فلک
مجھ کو اس زمرے سے نکال رکھے

سمجھے انداز شعر کو میرے
میرؔ کا سا اگر کمال رکھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse