جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے
by میر تقی میر

جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے
رومال دو دو دن تک جوں ابر تر رہے ہے

آہ سحر کی میری برچھی کے وسوسے سے
خورشید کے منہ اوپر اکثر سپر رہے ہے

آگہ تو رہیے اس کی طرز رہ و روش سے
آنے میں اس کے لیکن کس کو خبر رہے ہے

ان روزوں اتنی غفلت اچھی نہیں ادھر سے
اب اضطراب ہم کو دو دو پہر رہے ہے

آب حیات کی سی ساری روش ہے اس کی
پر جب وہ اٹھ چلے ہے ایک آدھ مر رہے ہے

تلوار اب لگا ہے بے ڈول پاس رکھنے
خون آج کل کسو کا وہ شوخ کر رہے ہے

در سے کبھو جو آتے دیکھا ہے میں نے اس کو
تب سے ادھر ہی اکثر میری نظر رہے ہے

آخر کہاں تلک ہم اک روز ہو چکیں گے
برسوں سے وعدۂ شب ہر صبح پر رہے ہے

میرؔ اب بہار آئی صحرا میں چل جنوں کر
کوئی بھی فصل گل میں نادان گھر رہے ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse