جب جنوں سے ہمیں توسل تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جب جنوں سے ہمیں توسل تھا
by میر تقی میر

جب جنوں سے ہمیں توسل تھا
اپنی زنجیر پا ہی کا غل تھا

بسترہ تھا چمن میں جوں بلبل
نالہ سرمایۂ توکل تھا

یک نگہ کو وفا نہ کی گویا
موسم گل صفیر بلبل تھا

ان نے پہچان کر ہمیں مارا
منہ نہ کرنا ادھر تجاہل تھا

شہر میں جو نظر پڑا اس کا
کشتۂ ناز یا تغافل تھا

اب تو دل کو نہ تاب ہے نہ قرار
یاد ایام جب تحمل تھا

جا پھنسا دام زلف میں آخر
دل نہایت ہی بے تامل تھا

یوں گئی قد کے خم ہوئے جیسے
عمر اک رہرو سر پل تھا

خوب دریافت جو کیا ہم نے
وقت خوش میرؔ نکہت گل تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse