جاں گداز اتنی کہاں آواز عود و چنگ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جاں گداز اتنی کہاں آواز عود و چنگ ہے
by میر تقی میر

جاں گداز اتنی کہاں آواز عود و چنگ ہے
دل کے سے نالوں کا ان پردوں میں کچھ آہنگ ہے

رو و خال و زلف ہی ہیں سنبل و سبزہ و گل
آنکھیں ہوں تو یہ چمن آئینۂ نیرنگ ہے

بے ستوں کھودے سے کیا آخر ہوئے سب کار عشق
بعد ازاں اے کوہ کن سر ہے ترا اور سنگ ہے

آہ ان خوش قامتوں کو کیونکے بر میں لائیے
جن کے ہاتھوں سے قیامت پر بھی عرصۂ تنگ ہے

عشق میں وہ گھر ہے اپنا جس میں سے مجنوں یہ ایک
نا خلف سارے قبیلے کا ہمارے ننگ ہے

چشم کم سے دیکھ مت قمری تو اس خوش قد کو ٹک
آہ بھی سرد گلستاں شکست رنگ ہے

ہم سے تو جایا نہیں جاتا کہ یکسر دل میں واں
دو قدم اس کی گلی کی راہ سو فرسنگ ہے

ایک بوسے پر تو کی ہے صلح پر اے زود رنج
تجھ کو مجھ کو اتنی اتنی بات اوپر جنگ ہے

پاؤں میں چوٹ آنے کے پیارے بہانے جانے دے
پیش رفت آگے ہمارے کب یہ عذر لنگ ہے

فکر کو نازک خیالوں کے کہاں پہنچے ہیں یار
ورنہ ہر مصرع یہاں معشوق شوخ و شنگ ہے

سرسری کچھ سن لیا پھر واہ وا کر اٹھ گئے
شعر یہ کم فہم سمجھے ہیں خیال بنگ ہے

صبر بھی کریے بلا پر میرؔ صاحب جی کبھو
جب نہ تب رونا ہی کڑھنا یہ بھی کوئی ڈھنگ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse