جان ہی جائے تو جائے درد دل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جان ہی جائے تو جائے درد دل
by حفیظ جونپوری
299664جان ہی جائے تو جائے درد دلحفیظ جونپوری

جان ہی جائے تو جائے درد دل
اک یہی ہے اب دوائے درد دل

اب تڑپنے میں مزا ملتا نہیں
ہو چلی جاں آشنائے درد دل

امتحان ضبط ہے منظور آج
جس قدر چاہے ستائے درد دل

بھاگتی ہے دور جس سے موت بھی
وہ بلا ہے یہ بلائے درد دل

رحم کب آیا کسی بے درد کو
ہو چکی جب انتہائے درد دل

کھا کے کچھ سو رہتے ہیں حرماں نصیب
ایک یہ بھی ہے دوائے درد دل

ہم مریضوں کا نہیں ممکن علاج
لا دوا ہیں مبتلائے درد دل

رہتی ہے سینے ہی پر تصویر دوست
ہے یہ تعویذ اک برائے درد دل

روتے روتے بندھ گئی ہچکی حفیظؔ
جب کہا کچھ ماجرائے درد دل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse