تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا
by میر تقی میر

تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا
شکر خدا کہ حق محبت ادا ہوا

قاصد کو دے کے خط نہیں کچھ بھیجنا ضرور
جاتا ہے اب تو جی ہی ہمارا چلا ہوا

وہ تو نہیں کہ اشک تھمے ہی نہ آنکھ سے
نکلے ہے کوئی لخت دل اب سو جلا ہوا

حیران رنگ باغ جہاں تھا بہت رکا
تصویر کی کلی کی طرح دل نہ وا ہوا

عالم کی بے فضائی سے تنگ آ گئے تھے ہم
جاگا سے دل گیا جو ہمارا بجا ہوا

در پے ہمارے جی کے ہوا غیر کے لیے
انجام کار مدعی کا مدعا ہوا

اس کے گئے پہ دل کی خرابی نہ پوچھیے
جیسے کسو کا کوئی نگر ہو لٹا ہوا

بد تر ہے زیست مرگ سے ہجران یار میں
بیمار دل بھلا نہ ہوا تو بھلا ہوا

کہتا تھا میرؔ حال تو جب تک تو تھا بھلا
کچھ ضبط کرتے کرتے ترا حال کیا ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse