تڑپنا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تڑپنا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے
by میر تقی میر

تڑپنا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے
میں کشتہ ہوں انداز قاتل کا اپنے

نہ پوچھو کہ احوال ناگفتہ بہ ہے
مصیبت کے مارے ہوئے دل کا اپنے

دل زخم خوردہ کے اور اک لگائی
مداوا کیا خوب گھائل کا اپنے

جو خوشہ تھا صد خرمن برق تھا یاں
جلایا ہوا ہوں میں حاصل کا اپنے

ٹک ابرو کو میری طرف کیجے مائل
کبھو دل بھی رکھ لیجے مائل کا اپنے

ہوا دفتر قیس آخر ابھی یاں
سخن ہے جنوں کے اوائل کا اپنے

بنائیں رکھیں میں نے عالم میں کیا کیا
ہوں بندہ خیالات باطل کا اپنے

مقام فنا واقعے میں جو دیکھا
اثر بھی نہ تھا گور منزل کا اپنے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse