تنگ آئے ہیں دل اس جی سے اٹھا بیٹھیں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تنگ آئے ہیں دل اس جی سے اٹھا بیٹھیں گے
by میر تقی میر

تنگ آئے ہیں دل اس جی سے اٹھا بیٹھیں گے
بھوکوں مرتے ہیں کچھ اب یار بھی کھا بیٹھیں گے

اب کے بگڑے گی اگر ان سے تو اس شہر سے جا
کسو ویرانے میں تکیہ ہی بنا بیٹھیں گے

معرکہ گرم تو ٹک ہونے دو خوں ریزی کا
پہلے تلوار کے نیچے ہمیں جا بیٹھیں گے

ہوگا ایسا بھی کوئی روز کہ مجلس سے کبھو
ہم تو ایک آدھ گھڑی اٹھ کے جدا بیٹھیں گے

جا نہ اظہار محبت پہ ہوسناکوں کی
وقت کے وقت یہ سب منہ کو چھپا بیٹھیں گے

دیکھیں وہ غیرت خورشید کہاں جاتا ہے
اب سر راہ دم صبح سے آ بیٹھیں گے

بھیڑ ٹلتی ہی نہیں آگے سے اس ظالم کے
گردنیں یار کسی روز کٹا بیٹھیں گے

کب تلک گلیوں میں سودائی سے پھرتے رہیے
دل کو اس زلف مسلسل سے لگا بیٹھیں گے

شعلہ افشاں اگر ایسی ہی رہی آہ تو میرؔ
گھر کو ہم اپنے کسو رات جلا بیٹھیں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse