ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا
by میر تقی میر

ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا
پر اتنا بھی ظالم نہ رسوا ہوا تھا

خزاں التفات اس پہ کرتی بجا تھی
یہ غنچہ چمن میں ابھی وا ہوا تھا

کہاں تھا تو اس طور آنے سے میرے
گلی میں تری کل تماشا ہوا تھا

گئی ہوتی سر آبلوں کے پہ ہوئی خیر
بڑا قضیہ خاروں سے برپا ہوا تھا

گریباں سے تب ہاتھ اٹھایا تھا میں نے
مری اور داماں صحرا ہوا تھا

زہے طالع اے میرؔ ان نے یہ پوچھا
کہاں تھا تو اب تک تجھے کیا ہوا تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse