تری ابرو و تیغ تیز تو ہم دم ہیں یہ دونوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تری ابرو و تیغ تیز تو ہم دم ہیں یہ دونوں
by میر تقی میر

تری ابرو و تیغ تیز تو ہم دم ہیں یہ دونوں
ہوئے ہیں دل جگر بھی سامنے رستم ہیں یہ دونوں

نہ کچھ کاغذ میں ہے تانے قلم کو درد نالوں کا
لکھوں کیا عشق کے حالات نامحرم ہیں یہ دونوں

لہو آنکھوں سے بہتے وقت رکھ لیتا ہوں ہاتھوں کو
جراحت ہیں اگر وے دونوں تو مرہم ہیں یہ دونوں

کسو چشمے پہ دریا کے دیا اوپر نظر رکھیے
ہمارے دیدۂ نم دیدہ کیا کچھ کم ہیں یہ دونوں

لب جاں بخش اس کے مار ہی رکھتے ہیں عاشق کو
اگرچہ آب حیواں ہیں و لیکن سم ہیں یہ دونوں

نہیں ابرو ہی مائل جھک رہی ہے تیغ بھی ادھر
ہمارے کشت و خوں میں متفق باہم ہیں یہ دونوں

کھلے سینے کے داغوں پر ٹھہر رہتے ہیں کچھ آنسو
چمن میں مہر ورزی کے گل و شبنم ہیں یہ دونوں

کبھو دل رکنے لگتا ہے جگر گاہے تڑپتا ہے
غم ہجراں میں چھاتی کے ہماری جم ہیں یہ دونوں

خدا جانے کہ دنیا میں ملیں اس سے کہ عقبیٰ میں
مکاں تو میرؔ صاحب شہرۂ عالم ہیں یہ دونوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse