تاب دل صرف جدائی ہو چکی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تاب دل صرف جدائی ہو چکی
by میر تقی میر

تاب دل صرف جدائی ہو چکی
یعنی طاقت آزمائی ہو چکی

چھوٹتا کب ہے اسیر خوش زباں
جیتے جی اپنی رہائی ہو چکی

آگے ہو مسجد کے نکلی اس کی راہ
شیخ سے اب پارسائی ہو چکی

درمیاں ایسا نہیں اب آئینہ
میرے اس کے اب صفائی ہو چکی

ایک بوسہ مانگتے لڑنے لگے
اتنے ہی میں آشنائی ہو چکی

بیچ میں ہم ہی نہ ہوں تو لطف کیا
رحم کر اب بے وفائی ہو چکی

آج پھر تھا بے حمیت میرؔ واں
کل لڑائی سی لڑائی ہو چکی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse