بھلا ہوگا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بھلا ہوگا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہوگا
by میر تقی میر

بھلا ہوگا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہوگا
مآل اپنا ترے غم میں خدا جانے کہ کیا ہوگا

تفحص فائدہ ناصح تدارک تجھ سے کیا ہوگا
وہی پاوے گا میرا درد دل جس کا لگا ہوگا

کسو کو شوق یا رب بیش اس سے اور کیا ہوگا
قلم ہاتھ آ گئی ہوگی تو سو سو خط لکھا ہوگا

دکانیں حسن کی آگے ترے تختہ ہوئی ہوں گی
جو تو بازار میں ہوگا تو یوسف کب بکا ہوگا

معیشت ہم فقیروں کی سی اخوان زماں سے کر
کوئی گالی بھی دے تو کہہ بھلا بھائی بھلا ہوگا

خیال اس بے وفا کا ہم نشیں اتنا نہیں اچھا
گماں رکھتے تھے ہم بھی یہ کہ ہم سے آشنا ہوگا

قیامت کر کے اب تعبیر جس کو کرتی ہے خلقت
وہ اس کوچے میں اک آشوب سا شاید ہوا ہوگا

عجب کیا ہے ہلاک عشق میں فرہاد و مجنوں کے
محبت روگ ہے کوئی کہ کم اس سے جیا ہوگا

نہ ہو کیوں غیرت گلزار وہ کوچہ خدا جانے
لہو اس خاک پر کن کن عزیزوں کا گرا ہوگا

بہت ہم سایے اس گلشن کے زنجیری رہا ہوں میں
کبھو تم نے بھی میرا شور نالوں کا سنا ہوگا

نہیں جز عرش جاگا راہ میں لینے کو دم اس کے
قفس سے تن کے مرغ روح میرا جب رہا ہوگا

کہیں ہیں میرؔ کو مارا گیا شب اس کے کوچے میں
کہیں وحشت میں شاید بیٹھے بیٹھے اٹھ گیا ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse