بو کہ ہو سوئے باغ نکلے ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بو کہ ہو سوئے باغ نکلے ہے
by میر تقی میر

بو کہ ہو سوئے باغ نکلے ہے
باؤ سے اک دماغ نکلے ہے

ہے جو اندھیر شہر میں خورشید
دن کو لے کر چراغ نکلے ہے

چوب کاری ہی سے رہے گا شیخ
اب تو لے کر چماغ نکلے ہے

دے ہے جنبش جو واں کی خاک کو باؤ
جگر داغ داغ نکلے ہے

ہر سحر حادثہ مری خاطر
بھر کے خوں کا ایاغ نکلے ہے

اس گلی کی زمین تفتہ سے
دل جلوں کا سراغ نکلے ہے

شاید اس زلف سے لگی ہے میرؔ
باؤ میں اک دماغ نکلے ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse