بغیر دل کہ یہ قیمت ہے سارے عالم کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بغیر دل کہ یہ قیمت ہے سارے عالم کی
by میر تقی میر

بغیر دل کہ یہ قیمت ہے سارے عالم کی
کسو سے کام نہیں رکھتی جنس آدم کی

کوئی ہو محرم شوخی ترا تو میں پوچھوں
کہ بزم عیش جہاں کیا سمجھ کے برہم کی

ہمیں تو باغ کی تکلیف سے معاف رکھو
کہ سیر و گشت نہیں رسم اہل ماتم کی

تنک تو لطف سے کچھ کہہ کہ جاں بہ لب ہوں میں
رہی ہے بات مری جان اب کوئی دم کی

گزرنے کو تو کج و واکج اپنی گزرے ہے
جفا جو ان نے بہت کی تو کچھ وفا کم کی

گھرے ہیں درد و الم میں فراق کے ایسے
کہ صبح عید بھی یاں شام ہے محرم کی

قفس میں میرؔ نہیں جوش داغ سینے پر
ہوس نکالی ہے ہم نے بھی گل کے موسم کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse