بزم میں جو ترا ظہور نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بزم میں جو ترا ظہور نہیں
by میر تقی میر

بزم میں جو ترا ظہور نہیں
شمع روشن کے منہ پہ نور نہیں

کتنی باتیں بنا کے لاؤں ایک
یاد رہتی ترے حضور نہیں

خوب پہچانتا ہوں تیرے تئیں
اتنا بھی تو میں بے شعور نہیں

قتل ہی کر کہ اس میں راحت ہے
لازم اس کام میں مرور نہیں

فکر مت کر ہمارے جینے کا
تیرے نزدیک کچھ یہ دور نہیں

پھر جئیں گے جو تجھ سا ہے جاں بخش
ایسا جینا ہمیں ضرور نہیں

عام ہے یار کی تجلی میرؔ
خاص موسیٰ و کوہ طور نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse