برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے
by میر تقی میر

برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے
کہ ہم راہ صبا ٹک سیر کرتے پھر ہوا ہوتے

سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو
وگرنہ ہم خدا تھے گر دل بے مدعا ہوتے

فلک اے کاش ہم کو خاک ہی رکھتا کہ اس میں ہم
غبار راہ ہوتے یا کسو کی خاک پا ہوتے

الٰہی کیسے ہوتے ہیں جنہیں ہے بندگی خواہش
ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے

تو ہے کس ناحیے سے اے دیار عشق کیا جانوں
ترے باشندگاں ہم کاش سارے بے وفا ہوتے

اب ایسے ہیں کہ صانع کے مزاج اوپر بہم پہنچے
جو خاطر خواہ اپنے ہم ہوئے ہوتے تو کیا ہوتے

کہیں جو کچھ ملامت گر بجا ہے میرؔ کیا جانیں
انہیں معلوم تب ہوتا کہ ویسے سے جدا ہوتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse