برقع اٹھا تھا رخ سے مرے بد گمان کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
برقع اٹھا تھا رخ سے مرے بد گمان کا
by میر تقی میر

برقع اٹھا تھا رخ سے مرے بد گمان کا
دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا

مت مانیو کہ ہوگا یہ بے درد اہل دیں
گر آوے شیخ پہن کے جامہ قرآن کا

خوبی کو اس کے چہرے کی کیا پہنچے آفتاب
ہے اس میں اس میں فرق زمین آسمان کا

ابلہ ہے وہ جو ہووے خریدار گل رخاں
اس سودے میں صریح ہے نقصان جان کا

کچھ اور گاتے ہیں جو رقیب اس کے روبرو
دشمن ہیں میری جان کے یہ جی ہے تان کا

تسکین اس کی تب ہوئی جب چپ مجھے لگی
مت پوچھ کچھ سلوک مرے بد زبان کا

یاں بلبل اور گل پہ تو عبرت سے آنکھ کھول
گل گشت سرسری نہیں اس گلستان کا

گل یادگار چہرۂ خوباں ہے بے خبر
مرغ چمن نشاں ہے کسو خوش زبان کا

تو برسوں میں کہے ہے ملوں گا میں میرؔ سے
یاں کچھ کا کچھ ہے حال ابھی اس جوان کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse