اے گل نو دمیدہ کے مانند

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے گل نو دمیدہ کے مانند
by میر تقی میر

اے گل نو دمیدہ کے مانند
ہے تو کس آفریدہ کے مانند

ہم امید وفا پہ تیری ہوئے
غنچۂ دیر چیدہ کے مانند

خاک کو میری سیر کر کے پھرا
وہ غزال رمیدہ کے مانند

سر اٹھاتے ہی ہو گئے پامال
سبزۂ نو دمیدہ کے مانند

نہ کٹے رات ہجر کی جو نہ ہو
نالہ تیغ کشیدہ کے مانند

ہم گرفتار حال ہیں اپنے
طائر پر بریدہ کے مانند

دل تڑپتا ہے اشک خونیں میں
صید در خوں تپیدہ کے مانند

تجھ سے یوسف کو کیونکے نسبت دیں
کب شنیدہ ہو دیدہ کے مانند

میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے لیک
بندۂ زر خریدہ کے مانند

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse