ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا
by میر تقی میر

ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا
ہر گام پہ جس میں سر نہ ہوگا

کیا ان نے نشے میں مجھ کو مارا
اتنا بھی تو بے خبر نہ ہوگا

دھوکا ہے تمام بحر دنیا
دیکھے گا کہ ہونٹ تر نہ ہوگا

آئی جو شکست آئینے پر
روئے دل یار ادھر نہ ہوگا

دشنوں سے کسی کا اتنا ظالم
ٹکڑے ٹکڑے جگر نہ ہوگا

اب دل کے تئیں دیا تو سمجھا
محنت زدوں کے جگر نہ ہوگا

دنیا کی نہ کر تو خواست گاری
اس سے کبھو بہرہ ور نہ ہوگا

آ خانہ خرابی اپنی مت کر
قحبہ ہے یہ اس سے گھر نہ ہوگا

ہو اس سے جہاں سیاہ تد بھی
نالے میں مرے اثر نہ ہوگا

پھر نوحہ گری کہاں جہاں میں
ماتم زدہ میرؔ اگر نہ ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse