اگر راہ میں اس کی رکھا ہے گام

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر راہ میں اس کی رکھا ہے گام
by میر تقی میر

اگر راہ میں اس کی رکھا ہے گام
گئے گزرے خضر علیہ السلام

دہن یار کا دیکھ چپ لگ گئی
سخن یاں ہوا ختم حاصل کلام

مجھے دیکھ منہ پر پریشاں کی زلف
غرض یہ کہ جا تو ہوئی اب تو شام

سر شام سے رہتی ہیں کاہشیں
ہمیں شوق اس ماہ کا ہے تمام

قیامت ہی یاں چشم و دل سے رہی
چلے بس تو واں جا کے کریے قیام

نہ دیکھے جہاں کوئی آنکھوں کی اور
نہ لیوے کوئی جس جگہ دل کا نام

جہاں میرؔ زیر و زبر ہو گیا
خراماں ہوا تھا وہ محشر خرام

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse