اژدرنامہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اژدرنامہ
by میر تقی میر

یہ موذی کئی ناخبردار فن
نئی ناگنیں جن کے ٹیکوں پہ پھن
نہیں جانتیں میں ہوں مار سیاہ
زبانہ ہے آتش کا میری نگاہ
نفس ہے مرا افعی پیچ دار
گیا جس سے خصم قوی من کو مار
جدھر پھر نظر دیکھوں لگ جائے آگ
دم دم کشی لب پہ کھیلیں ہیں ناگ
جہاں میں ہوں وہ جا ہے پرشر و شور
عصا سے چلے راہ واں مار و مور
مری آنکھ سے زہر ٹپکا کیا
جلا آگے میرے کبھو کب دیا
سن اس ماجرے کو سبھوں نے کہا
کہاں کیچوے یہ کہاں اژدہا
نہ خصمی مری اژدروں سے ہوئی
طرف مجھ سے ہو جونک کیا ادھ موئی
اگر شور زاغاں سے ڈر جائے مار
تو کیا اجگروں کا رہے اعتبار
نہ کس طور اژدر کو تلواسہ ہو
حریف اس کی سوکھی سی چلپاسہ ہو
کہاں چھپکلی اژدہے سے لڑی
کس اژدر پہ ایسی قیامت پڑی
ہزار اجگر اندوہ سے جائے لٹ
ولے ایسے کیڑے مکوڑے ہیں چٹ
جہاں شور اژدر سے ہے دھوم دھام
کوئی کنسلائی سے نکلے ہے کام
بظاہر یہ لائے تو ہیں پر نکال
ولے ہوں گے ان کے جیوں کے وبال
حریفی انھوں سے ہو اژدر کی کب
وہ کھینچے جو یک دم تو پھنکا ہیں سب
حکایت بعینہ یہ دل سے ہے میرؔ
سر راہ کہتا تھا جو اک فقیر
کہ تھا دشت میں ایک اژدر مقیم
درندوں کے بھی دل تھے اس سے دو نیم
نکلتے نہ تھے اس طرف ہو کے شیر
پلنگ و نمر واں نہ رہتے تھے دیر
جہاں شیر کا زہرہ ہوتا ہو آب
شغال اور روبہ کا واں کیا حساب
وہ صحرا تھا اس کے سبب ہولناک
دم اس کے نے واں کی اڑا دی تھی خاک
نکلتا تھا جب بہر برگ و نوا
شجر کے شجر ہوتے تھے تب ہوا
کہاں سایہ اس جا و سبزہ کہاں
درخت اس کے چاٹے رہے تھے نہ واں
صدا جب مہیب اس کی ہوتی بلند
جگر چاک کرتے ہوا سے پرند
درندوں کے برجا نہ رہتے حواس
چرندے مکانوں سے ہوتے اداس
وحوش اس بیاباں میں جاتے نہ تھے
طیور آشیانوں میں آتے نہ تھے
کبھو اس کی رہ میں جو اٹھتا غبار
تو وہ دشت تھا ایک تاریک غار
پہنچتا تھا گردوں تلک شور و شر
ہوا صاف ہوتی نہ دو دو پہر
رہا کرتی کوسوں تلک اس کی دھوم
نہ اس راہ آتا کوئی جز سموم
ہوئے ساکنان بیاباں بتنگ
اٹھے کوہ و وادی سے شیر و پلنگ
گئے جان لے لے وحوش و طیور
کوئی رہ گیا موش و مینڈھک سا دور
گئی لومڑی ایک سوکھی ہوئی
کسو اور جنگل میں بھوکی ہوئی
گلے میں جو یاں کے کھلے اس کے لب
ہوئے واں کے اعیان گرم غضب
خراطین و خرموش و موش و شغال
اس اژدر کو کر جنس اپنی خیال
رواں ساتھ اس کے شبانہ ہوئے
کئی گرگٹ آگے روانہ ہوئے
رعونت سے مینڈھک اچھلتے چلے
بلوں میں سے چوہے نکلتے چلے
قریب اس بیاباں کے جس دم گئے
انھوں میں سے آگے بہت کم گئے
قضارا وہ آفت تھی سرگرم سیر
چلے آتے تھے بھاگتے وحش و طیر
اس آشوب سے دست و پا گم کیے
فراموش سب نے سر و دم کیے
لگا ڈرنے خرموش سا پہلواں
ہوا مضطرب کیچوا سا جواں
وہ گرگٹ کہ جس کو تھی گردن کشی
ہوئی خوف سے اس پہ طاری غشی
قدم غوک سے گرد کا جل گیا
بھروسا تھا گیدڑ پہ سو ٹل گیا
جہاں پہلواں موش رستم معاش
لگا کرنے میدان میں بل تلاش
کہ سوراخ پاوے تو روپوش ہو
یہ تشویش یک دم فراموش ہو
ولے چھوڑتا کب ہے خصم قوی
کہ ہو خوف جاں سے کوئی منزوی
پراگندگی تھی اس انبوہ میں
کہ گونجی بلاے سیہ کوہ میں
اس آواز سے جی نکل ہی گئے
جو ثابت قدم تھے بچل ہی گئے
سیہ جب ہوا ہوگئے منھ سفید
ہوئے مدعی جان سے ناامید
بھرا ایک دم ان نے وا کر دہاں
کہ پایا اس انبوہ کو نیم جاں
دم دیگر ان سے نہ کوئی رہا
وہی دشت خالی وہی اژدہا
زبانہ وہی آگ کا چار اور
ہوا گرم ویسی ہی ویسا ہی شور
وہی دم کشی شام سے تا سحر
اسی ہولناکی سے وہ دشت و در
گئی یہ خبر جس بیابان میں
رہی سدھ نہ کچھ واں کے سکان میں
کنھوں نے کبھو منھ نہ ایدھر کیا
نہ پھر نام اس اژدہے کا لیا
مری ان گزندوں کی صحبت ہے یہ
طرف ہوں مرے ان کی طاقت ہے یہ
جو مجھ کو ہو کچھ بھی انھوں کا خیال
تو یہ مارگیری کریں کیا مجال
تو کیا ہو انھوں سے بہت دور میں
ہوں اپنی جگہ شاد و مسرور میں
مری قدر کیا ان کے کچھ ہاتھ ہے
جو رتبہ ہے میرا مرے ساتھ ہے
کہاں پہنچیں مجھ تک یہ کیڑے حقیر
گیا سانپ پیٹا کریں اب لکیر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse