اندوہ سے ہوئی نہ رہائی تمام شب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اندوہ سے ہوئی نہ رہائی تمام شب
by میر تقی میر

اندوہ سے ہوئی نہ رہائی تمام شب
مجھ دل زدہ کو نیند نہ آئی تمام شب

جب میں شروع قصہ کیا آنکھیں کھول دیں
یعنی تھی مجھ کو چشم نمائی تمام شب

چشمک چلی گئی تھی ستاروں کی صبح تک
کی آسماں نے دیدہ درائی تمام شب

بخت سیہ نے دیر میں کل یاوری سی کی
تھی دشمنوں سے اس کو لڑائی تمام شب

بیٹھے ہی گزری وعدے کی شب وہ نہ آ پھرا
ایذا عجب طرح کی اٹھائی تمام شب

سناہٹے سے دل سے گزر جائیں سو کہاں
بلبل نے گو کی نالہ سرائی تمام شب

تارے سے میری پلکوں پہ قطرے سرشک کے
دیتے رہے ہیں میرؔ دکھائی تمام شب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse