امیروں تک رسائی ہو چکی بس

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
امیروں تک رسائی ہو چکی بس
by میر تقی میر

امیروں تک رسائی ہو چکی بس
مری بخت آزمائی ہو چکی بس

بہار اب کے بھی جو گزری قفس میں
تو پھر اپنی رہائی ہو چکی بس

کہاں تک اس سے قصہ قضیہ ہر شب
بہت باہم لڑائی ہو چکی بس

نہ آیا وہ مرے جاتے جہاں سے
یہیں تک آشنائی ہو چکی بس

لگا ہے حوصلہ بھی کرنے تنگی
غموں کی اب سمائی ہو چکی بس

برابر خاک کے تو کر دکھایا
فلک بس بے ادائی ہو چکی بس

دنی کے پاس کچھ رہتی ہے دولت
ہمارے ہاتھ آئی ہو چکی بس

دکھا اس بت کو پھر بھی یا خدایا
تری قدرت نمائی ہو چکی بس

شرر کی سی ہے چشمک فرصت عمر
جہاں دے ٹک دکھائی ہو چکی بس

گلے میں گیروی کفنی ہے اب میرؔ
تمہاری میرزائی ہو چکی بس

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse