افسانۂ حیات کو دہرا رہا ہوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
افسانۂ حیات کو دہرا رہا ہوں میں
by امین حزیں سیالکوٹی

افسانۂ حیات کو دہرا رہا ہوں میں
یوں اپنی عمر رفتہ کو لوٹا رہا ہوں میں

اک اک قدم پہ درس وفا دے رہا ہوں میں
یہ کس کی جستجو ہے کدھر جا رہا ہوں میں

یا رب کسی کا دام حسیں منتظر نہ ہو
پر شوق کے لگے ہیں اڑا جا رہا ہوں میں

اس سحر رنگ و بو نے تو دیوانہ کر دیا
دامن کے تار تار کو الجھا رہا ہوں میں

سوز درون سینہ کو نغموں میں ڈھال کر
ساز نفس کے تار کو برما رہا ہوں میں

راہ طلب میں دیکھ مرے دل کی حسرتیں
سائے میں پائے خضر کو سہلا رہا ہوں میں

رستے کی اونچ نیچ سے واقف تو ہوں امیںؔ
ٹھوکر قدم قدم پہ مگر کھا رہا ہوں میں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse