اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا
by میر تقی میر

اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا
قسمے کہ عشق جی سے مرے تاب لے گیا

کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

آوے جو مصطبہ میں تو سن لو کہ راہ سے
واعظ کو ایک جام مئے ناب لے گیا

نے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش
آیا جو سیل عشق سب اسباب لے گیا

میرے حضور شمع نے گریہ جو سر کیا
رویا میں اس قدر کہ مجھے آب لے گیا

احوال اس شکار زبوں کا ہے جائے رحم
جس ناتواں کو مفت نہ قصاب لے گیا

منہ کی جھلک سے یار کے بے ہوش ہو گئے
شب ہم کو میرؔ پرتو مہتاب لے گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse