ادھر آ کر شکار افگن ہمارا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ادھر آ کر شکار افگن ہمارا
by میر تقی میر

ادھر آ کر شکار افگن ہمارا
مشبک کر گیا ہے تن ہمارا

گریباں سے رہا کوتہ تو پھر ہے
ہمارے ہاتھ میں دامن ہمارا

گئے جوں شمع اس مجلس میں جتنے
سبھوں پر حال ہے روشن ہمارا

بلا جس چشم کو کہتے ہیں مردم
وہ ہے عین بلا مسکن ہمارا

ہوا رونے سے راز دوستی فاش
ہمارا گریہ تھا دشمن ہمارا

بہت چاہا تھا ابر تر نے لیکن
نہ منت کش ہوا گلشن ہمارا

چمن میں ہم بھی زنجیری رہے ہیں
سنا ہوگا کبھو شیون ہمارا

کیا تھا ریختہ پردہ سخن کا
سو ٹھہرا ہے یہی اب فن ہمارا

نہ بہکے میکدے میں میرؔ کیوں کر
گرو سو جا ہے پیراہن ہمارا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse