اب کے بھی سیر باغ کی جی میں ہوس رہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب کے بھی سیر باغ کی جی میں ہوس رہی
by میر تقی میر

اب کے بھی سیر باغ کی جی میں ہوس رہی
اپنی جگہ بہار میں کنج قفس رہی

میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی

لطف قبائے تنگ پہ گل کا بجا ہے ناز
دیکھی نہیں ہے ان نے تری چولی چس رہی

دن رات میری آنکھوں سے آنسو چلے گئے
برسات اب کے شہر میں سارے برس رہی

خالی شگفتگی سے جراحت نہیں کوئی
ہر زخم یاں ہے جیسے کلی ہو بکس رہی

دیوانگی کہاں کہ گریباں سے تنگ ہوں
گردن مری ہے طوق میں گویا کہ پھنس رہی

جوں صبح اس چمن میں نہ ہم کھل کے ہنس سکے
فرصت رہی جو میرؔ بھی سو یک نفس رہی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse