اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی
by میر تقی میر

اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی
اس دل کے تڑپنے نے کیا خانہ خرابی کی

ان درس گہوں میں وہ آیا نہ نظر ہم کو
کیا نقل کروں خوبی اس چہرہ کتابی کی

بھنتے ہیں دل اک جانب سکتے ہیں جگر یکسو
ہے مجلس مشتاقاں دکان کبابی کی

تلخ اس لب میگوں سے سب سنتے ہیں کس خاطر
تہہ دار نہیں ہوتی گفتار شرابی کی

یک بو کشی بلبل ہے موجب صد مستی
پر زور ہے کیا دارو غنچے کی گلابی کی

اب سوز محبت سے سارے جو پھپھولے ہیں
ہے شکل مرے دل کی سب شیشہ حبابی کی

نش مردہ مرے منہ سے یاں حرف نہیں نکلا
جو بات کہ میں نے کی سو میرؔ حسابی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse