اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ
by میر تقی میر

اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ
کیا پوچھتے ہو الحمدللہ

مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے
کتنا ہے مغرور اللہ اللہ

پیر مغاں سے بے اعتقادی
استغفر اللہ استغفر اللہ

کہتے ہیں اس کے تو منہ لگے گا
ہو یوں ہی یا رب جوں ہے یہ افواہ

حضرت سے اس کی جانا کہاں ہے
اب مر رہے گا یاں بندہ درگاہ

سب عقل کھوئے ہے راہ محبت
ہو خضر دل میں کیسا ہی گمراہ

مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ
کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ

کیا کیا نہ ریجھیں تم نے پچائیں
اچھا رجھایا اے مہرباں آہ

گزرے ہے دیکھیں کیوں کر ہماری
اس بے وفا سے نے رسم نے راہ

تھی خواہش دل رکھنا حمائل
گردن میں اس کی ہر گاہ و بیگاہ

اس پر کہ تھا وہ شہ رگ سے اقرب
ہرگز نہ پہنچا یہ دست کوتاہ

ہے ماسوا کیا جو میرؔ کہیے
آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ

جلوے ہیں اس کے شانیں ہیں اس کی
کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ

ظاہر کہ باطن اول کہ آخر
اللہ اللہ اللہ اللہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse