اب تو زندہ ہوئے ہیں ہم مر کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب تو زندہ ہوئے ہیں ہم مر کے  (1916) 
by قمر ہلالی

اب تو زندہ ہوئے ہیں ہم مر کے
آئیے دیکھ لیں نظر بھر کے

ساغر موت دے مجھے بھر کے
ان کے وعدے ہیں روز محشر کے

یاد آتی ہیں یار کی آنکھیں
ساقیا جام دے مجھے بھر کے

زندہ رہتے ہیں یا کہ مرتے ہیں
منتظر ہیں وصال دلبر کے

نامہ بر کا پتہ نہیں شاید
کاٹ ڈالے ہوں پر کبوتر کے

ایک ہی وار میں تمام کیا
صدقے ہو جاؤں تیرے خنجر کے

صبح رخ پر پڑی ہے گیسوئے شب
اب ہیں مہمان ہم بھی شب بھر کے

بحر دل ہو گیا ہے طوفاں میں
اڑ گئے ہوش دیدۂ تر کے

نقش پا بن کے اے قمرؔ رہنا
پیر و مرشد کے اور پیمبر کے


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%A7%D8%A8_%D8%AA%D9%88_%D8%B2%D9%86%D8%AF%DB%81_%DB%81%D9%88%D8%A6%DB%92_%DB%81%DB%8C%DA%BA_%DB%81%D9%85_%D9%85%D8%B1_%DA%A9%DB%92