آیا ہے ہر چڑھائی کے بعد اک اتار بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آیا ہے ہر چڑھائی کے بعد اک اتار بھی
by شکیب جلالی

آیا ہے ہر چڑھائی کے بعد اک اتار بھی
پستی سے ہم کنار ملے کوہسار بھی

آخر کو تھک کے بیٹھ گئی اک مقام پر
کچھ دور میرے ساتھ چلی رہ گزار بھی

دل کیوں دھڑکنے لگتا ہے ابھرے جو کوئی چاپ
اب تو نہیں کسی کا مجھے انتظار بھی

جب بھی سکوت شام میں آیا ترا خیال
کچھ دیر کو ٹھہر سا گیا آبشار بھی

کچھ ہو گیا ہے دھوپ سے خاکستری بدن
کچھ جم گیا ہے راہ کا مجھ پر غبار بھی

اس فاصلوں کے دشت میں رہبر وہی بنے
جس کی نگاہ دیکھ لے صدیوں کے پار بھی

اے دوست پہلے قرب کا نشہ عجیب تھا
میں سن سکا نہ اپنے بدن کی پکار بھی

رستہ بھی واپسی کا کہیں بن میں کھو گیا
اوجھل ہوئی نگاہ سے ہرنوں کی ڈار بھی

کیوں رو رہے ہو راہ کے اندھے چراغ کو
کیا بجھ گیا ہوا سے لہو کا شرار بھی

کچھ عقل بھی ہے باعث توقیر اے شکیبؔ
کچھ آ گئے ہیں بالوں میں چاندی کے تار بھی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse