آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
by میر تقی میر

آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس باؤ نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا

سمجھی نہ باد صبح کہ آ کر اٹھا دیا
اس فتنۂ زمانہ کو ناحق جگا دیا

پوشیدہ راز عشق چلا جائے تھا سو آج
بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اٹھا دیا

اس موج خیز دہر میں ہم کو قضا نے آہ
پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا

تھی لاگ اس کی تیغ کو ہم سے سو عشق نے
دونوں کو معرکے میں گلے سے ملا دیا

سب شور ما و من کو لیے سر میں مر گئے
یاروں کو اس فسانے نے آخر سلا دیا

آوارگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا

اجزا بدن کے جتنے تھے پانی ہو بہہ گئے
آخر گداز عشق نے ہم کو بہا دیا

کیا کچھ نہ تھا ازل میں نہ تالا جو تھے درست
ہم کو دل شکستہ قضا نے دلا دیا

گویا محاسبہ مجھے دینا تھا عشق کا
اس طور دل سی چیز کو میں نے لگا دیا

مدت رہے گی یاد ترے چہرے کی جھلک
جلوے کو جس نے ماہ کے جی سے بھلا دیا

ہم نے تو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں
دل جو دیا تھا سو تو دیا سر جدا دیا

بوئی کباب سوختہ آئی دماغ میں
شاید جگر بھی آتش غم نے جلا دیا

تکلیف درد دل کی عبث ہم نشیں نے کی
درد سخن نے میرے سبھوں کو رلا دیا

ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse