آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں
by میر تقی میر

آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں
روز برسات کی ہوا ہے یاں

جس جگہ ہو زمین تفتہ سمجھ
کہ کوئی دل جلا گڑا ہے یاں

گو کدورت سے وہ نہ دیوے رو
آرسی کی طرح صفا ہے یاں

ہر گھڑی دیکھتے جو ہو ایدھر
ایسا کہ تم نے آ نکلا ہے یاں

رند مفلس جگر میں آہ نہیں
جان محزوں ہے اور کیا ہے یاں

کیسے کیسے مکان ہیں ستھرے
اک ازاں جملہ کربلا ہے یاں

اک سسکتا ہے ایک مرتا ہے
ہر طرف ظلم ہو رہا ہے یاں

صد تمنا شہید ہیں یکجا
سینہ کوبی ہے تعزیہ ہے یاں

دیدنی ہے غرض یہ صحبت شوخ
روز و شب طرفہ ماجرا ہے یاں

خانۂ عاشقاں ہے جاے خوب
جائے رونے کی جا بہ جا ہے یاں

کوہ و صحرا بھی کر نہ جائے باش
آج تک کوئی بھی رہا ہے یاں

ہے خبر شرط میرؔ سنتا ہے
تجھ سے آگے یہ کچھ ہوا ہے یاں

موت مجنوں کو بھی یہیں آئی
کوہ کن کل ہی مر گیا ہے یاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse