آہنگ نو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آہنگ نو
by مجاز لکھنوی

اے جوانان وطن روح جواں ہے تو اٹھو
آنکھ اس محشر نو کی نگراں ہے تو اٹھو
خوف بے حرمتی و فکر زیاں ہے تو اٹھو
پاس ناموس نگاران جہاں ہے تو اٹھو
اٹھو نقارۂ افلاک بجا دو اٹھ کر
ایک سوئے ہوئے عالم کو جگا دو اٹھ کر

ایک اک سمت سے شبخون کی تیاری ہے
لطف کا وعدہ ہے اور مشق جفا کاری ہے
محفل زیست پہ فرمان قضا جاری ہے
شہر تو شہر ہے گاؤں پہ بھی بمباری ہے
یہ فضا میں جو گرجتے ہوئے طیارے ہیں
برسر دوش ہوا موت کے ہرکارے ہیں

اس طرف ہاتھوں میں شمشیریں ہی شمشیریں ہیں
اس طرف ذہن میں تدبیریں ہی تدبیریں ہیں
ظلم پر ظلم ہیں تعزیروں پہ تعزیریں ہیں
سر پہ تلوار ہے اور پاؤں میں زنجیریں ہیں
ایک ہو ایک کہ ہنگامۂ محشر ہے یہی
عرصۂ زیست کا ہنگامۂ اکبر ہے یہی

اپنی سرحد پہ جو اغیار چلے آتے ہیں
شعلہ افشاں و شرر بار چلے آتے ہیں
خون پیتے ہوئے سرشار چلے آتے ہیں
تم جو اٹھ جاؤ تو بے کار چلے آتے ہیں
خوں جو بہہ نکلا ہے اس خوں میں بہا دو ان کو
ان کی کھودی ہوئی خندق میں گرا دو ان کو

رنگ گلہائے گلستان وطن تم سے ہے
سورش نعرۂ رندان وطن تم سے ہے
نشۂ نرگس خوبان وطن تم سے ہے
عفت ماہ جبینان وطن تم سے ہے
تم ہو غیرت کے امیں تم ہو شرافت کے امیں
اور یہ خطرے میں ہیں احساس تمہیں ہے کہ نہیں

یہ درندے یہ شرافت کے پرانے دشمن
تم کہ ہو حامل آداب و روایات کہن
جادہ پیما کے لیے خضر ہو تم یہ رہزن
تم ہو خرمن کے نگہبان یہ برق خرمن
خطۂ پاک میں زنہار نہ آنے پائیں
آ ہی جائیں جو یہ زندہ تو نہ جانے پائیں

مرد و زن پیر و جواں ان کے مظالم کے شکار
خون معصوم میں ڈوبی ہوئی ان کی تلوار
یہ قیامت کے ہوس ناک غضب کے خوں خار
ان کے عصیاں کی نہ حد ہے نہ جرائم کا شمار
یہ ترحم سے نہ دیکھیں گے کسی کی جانب
ان کی توپوں کے دہن کر دو انہی کی جانب

یہ تو ہیں فتنۂ بیدار دبا دو ان کو
یہ مٹا دیں گے تمدن کو مٹا دو ان کو
پھونک دو ان کو جھلس دو کہ جلا دو ان کو
شان شایان وطن ہو یہ بتا دو ان کو
یاد ہے تم کو کن اسلاف کی تم یادیں ہو
تم تو خالد کے پسر بھیم کی اولادیں ہو

تم تو تنہا بھی نہیں ہو کئی دم ساز بھی ہیں
روس کے مرد بھی ہیں چین کے جاں باز بھی ہیں
کچھ نہ کچھ ساتھ فرنگی کے فسوں ساز بھی ہیں
اور ہم جیسے بہت زمزمہ پرداز بھی ہیں
دور انسان کے سر سے یہ مصیبت کر دو
آگ دوزخ کی بجھا دو اسے جنت کر دو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse