آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی
by میر تقی میر

آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی
دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی

بیگانہ سا لگے ہے چمن اب خزاں میں ہائے
ایسی گئی بہار مگر آشنا نہ تھی

کب تھا یہ شور نوحہ ترا عشق جب نہ تھا
دل تھا ہمارا آگے تو ماتم سرا نہ تھی

وہ اور کوئی ہوگی سحر جب ہوئی قبول
شرمندۂ اثر تو ہماری دعا نہ تھی

آگے بھی تیرے عشق سے کھینچے تھے درد و رنج
لیکن ہماری جان پر ایسی بلا نہ تھی

دیکھے دیار حسن کے میں کارواں بہت
لیکن کسو کے پاس متاع وفا نہ تھی

آئی پری سی پردۂ مینا سے جام تک
آنکھوں میں تیری دختر رز کیا حیا نہ تھی

اس وقت سے کیا ہے مجھے تو چراغ وقف
مخلوق جب جہاں میں نسیم و صبا نہ تھی

پژمردہ اس قدر ہیں کہ ہے شبہ ہم کو میرؔ
تن میں ہمارے جان کبھو تھی بھی یا نہ تھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse