آنسو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنسو
by اختر شیرانی

میرے پہلو میں جو بہہ نکلے تمہارے آنسو
بن گئے شام محبت کے ستارے آنسو

دیکھ سکتا ہے بھلا کون یہ پارے آنسو
میری آنکھوں میں نہ آ جائیں تمہارے آنسو

شمع کا عکس جھلکتا ہے جو ہر آنسو میں
بن گئے بھیگی ہوئی رات کے تارے آنسو

مینہ کی بوندوں کی طرح ہو گئے سستے کیوں آج
موتیوں سے کہیں مہنگے تھے تمہارے آنسو

صاف اقرار محبت ہو زباں سے کیوں کر
آنکھ میں آ گئے یوں شرم کے مارے آنسو

ہجر ابھی دور ہے میں پاس ہوں اے جان وفا
کیوں ہوئے جاتے ہیں بے چین تمہارے آنسو

صبح دم دیکھ نہ لے کوئی یہ بھیگا آنچل
میری چغلی کہیں کھا دیں نہ تمہارے آنسو

اپنے دامان و گریباں کو میں کیوں پیش کروں
ہیں مرے عشق کا انعام تمہارے آنسو

دم رخصت ہے قریب اے غم فرقت خوش ہو
کرنے والے ہیں جدائی کے اشارے آنسو

صدقے اس جان محبت کے میں اخترؔ جس کے
رات بھر بہتے رہے شوق کے مارے آنسو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse