آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
by میر تقی میر

آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں

برق کم حوصلہ ہے ہم بھی تو
دل کو بے قرار رکھتے ہیں

غیر ہی مورد عنایت ہے
ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں

نہ نگہ نے پیام نے وعدہ
نام کو ہم بھی یار رکھتے ہیں

ہم سے خوش زمزمہ کہاں یوں تو
لب و لہجہ ہزار رکھتے ہیں

چوٹٹے دل کے ہیں بتاں مشہور
بس یہی اعتبار رکھتے ہیں

پھر بھی کرتے ہیں میرؔ صاحب عشق
ہیں جواں اختیار رکھتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse