آدمی آدمی سے ملتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آدمی آدمی سے ملتے ہیں
by راغب بدایونی

آدمی آدمی سے ملتے ہیں
آپ بھی کیا کسی سے ملتے ہیں

یہ حسیں جس کسی سے ملتے ہیں
جانتا ہے مجھی سے ملتے ہیں

ہم سے فرقت نصیب کیا جانیں
جو مزے زندگی سے ملتے ہیں

کیا بتائیں جنوں میں کیا کیا لطف
ہم کو ان کی ہنسی سے ملتے ہیں

کیا کہیں جب وہ ملتے ہیں تنہا
ان سے ہم کس خوشی سے ملتے ہیں

اس کی صورت کو پھر کوئی دیکھے
جس سے وہ بے رخی سے ملتے ہیں

ان کی رخصت کے وقت ہم ان سے
ہائے کس بیکسی سے ملتے ہیں

لاکھ غم زندگی ہے خود یعنی
لاکھ غم زندگی سے ملتے ہیں

اپنے مذہب میں ہے نفاق حرام
جس سے ملتے ہیں جی سے ملتے ہیں

سخن داغؔ کے مرے راغبؔ
سخن شوقؔ ہی سے ملتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse