آج کل بے قرار ہیں ہم بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آج کل بے قرار ہیں ہم بھی
by میر تقی میر

آج کل بے قرار ہیں ہم بھی
بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی

آن میں کچھ ہیں آن میں کچھ ہیں
تحفۂ روزگار ہیں ہم بھی

منا گریہ نہ کر تو اے ناصح
اس میں بے اختیار ہیں ہم بھی

درپئے جان ہے قراول مرگ
کسو کے تو شکار ہیں ہم بھی

نالے کریو سمجھ کے اے بلبل
باغ میں یک کنار ہیں ہم بھی

مدعی کو شراب ہم کو زہر
عاقبت دوست دار ہیں ہم بھی

مضطرب گریہ ناک ہے یہ گل
برق ابر بہار ہیں ہم بھی

گر زخود رفتہ ہیں ترے نزدیک
اپنے تو یادگار ہیں ہم بھی

میرؔ نام اک جواں سنا ہوگا
اسی عاشق کے یار ہیں ہم بھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse