آج

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آج
by مجاز لکھنوی

کار فرما پھر مرا ذوق غزل خوانی ہے آج
پھر نفس کا ساز گرم شعلہ افشانی ہے آج

پھر نگاہ شوق کی گرمی ہے اور روئے نگار
پھر عرق آلود اک کافر کی پیشانی ہے آج

پھر مرے لب پر قصیدے ہیں لب و رخسار کے
پھر کسی چہرے پہ تابانی سی تابانی ہے آج

حسن اس درجہ نشاط حسن میں ڈوبا ہوا
انکھڑیاں بے خود شمیم زلف دیوانی ہے آج

لرزش لب میں شراب‌ و شعر کا طوفان ہے
جنبش مژگاں میں افسون غزل خوانی ہے آج

وہ نفس کی زمزمہ سنجی نظر کی گفتگو
سینۂ معصوم میں اک طرفہ طغیانی ہے آج

یاں بایں عالم غرور یوسفیت بھی نہیں
واں زلیخائی بہ عزم چاکدامانی ہے آج

واں اشارے ہیں بہک جانا ہی عیش ہوش ہے
ہوش میں رہنا یقیناً سخت نادانی ہے آج

کش مکش سی کش مکش میں ہے مذاق عاشقی
کامراں سی کامراں ہر سعئ امکانی ہے آج

حسن کے چہرے پہ ہے نور صداقت کی دمک
عشق کے سر پر کلاہ فخر انسانی ہے آج

شوق سے موقع شناسی کی توقع بھی غلط
میں نے ان کی شکل بھی مشکل سے پہچانی ہے آج

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse