آتش غم میں بس کہ جلتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آتش غم میں بس کہ جلتے ہیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

آتش غم میں بس کہ جلتے ہیں
شمع ساں استخواں پگھلتے ہیں

وہی دشت اور وہی گریباں چاک
جب تلک ہاتھ پانو چلتے ہیں

دیکھ تیری صفائے صورت کو
آئینے منہ سے خاک ملتے ہیں

جوشش اشک ہے وہ آنکھوں میں
جیسے اس سے کنویں ابلتے ہیں

دیکھ عارض کو تیرے گلشن میں
سیکڑوں رنگ گل بدلتے ہیں

شوخ چشمی بتاں کی مجھ سے نہ پوچھ
کہ یہ نظروں میں دل کو چھلتے ہیں

دیکھیو شیخ جی کی چال کو ٹک
اب کوئی دم میں یہ پھسلتے ہیں

بن لیے کام دل کا اس کو سے
مصحفیؔ ہم کوئی نکلتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse