آب حیات/مِرزا سَلامَت علی دبیر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

خاندانی شاعر (تذکرہ سراپا سخن میں لکھا ہے کہ اُن کے والد مرزا آغا جان کاغذ فروش تھے، پھر ایک جگہ اس کتاب میں لکھتے ہیں دبیر ولد غلام حسین متعلقان مرزا آغا جان کاغذ فروش سے ہیں مصنف موصوف کو شوق ہے کہ ہر شخص کے باب میں کچھ نہ کچھ نکتہ طنز نکال لیتے ہیں، اسی لئے خاندان کے باب میں نہ یقین ہے نہ شک۔) نہ تھے۔ لڑکپن میں مرثیہ پڑھتے تھے۔ اس شوق نے منبر کی سیڑھی سے مرثیہ گوئی کے عرش الکمال پر پہونچا دیا، میر مظفر حسین صگیر کے شاگرد ہوئے اور جو کچھ اُستاد سے پایا اُسے بہت بلند اور روشن کر کے دکھایا۔ تمام عمر کسی اتفاقی سبب سے کوئی غزل یا شعر کہا ہو ورنہ مرثیہ گوئی کے فن کو لیا اور اس درجہ تک پہونچا دیا جس کے آگے ترقی کا راستہ بند ہو گیا۔ ابتدا سے اس شغل کو زاد آخرت کا سامان سمجھا، اور نیک نیتی سے اس کا ثمرہ لیا۔ طبیعت بھی ایسی گداز پائی تھی جو کہ اس فن کے لئے نہایت موزوں اور مناسب تھی، ان کی سلامت روی، پرہیز گاری، مسافر نوازی اور سخاوت نے صفتِ کمال کو زیادہ تر رونق دی تھی۔

شاگردانِ الہٰی کی طبیعت بھی جذبہ الہٰی کا شوق رکھتی ہے۔ بچپن سے دل چونچال تھا، ابردائے مشق میں کسی لفظ پر اُستاد کی اصلاح پسند نہ آئی۔ شیخ ناسخ زندہ تھے، مگر بوڑھے ہو گئے تھے۔ ان کے پاس چلے گئے، وہ اس وقت گھر کے صحن میں مونڈھے بچھائے جلسہ جمائے بیٹھے تھے۔ انھوں نے عرض کی کہ حضرت! اس شعر میں میں نے تو یہ کہا ہے اور اُستاد نے یہ اصلاح دی ہے، انھوں نے فرمایا کہ اُستاد نے ٹھیک اصلاح دی ہے۔ انھوں نے پھر کہا کہ حضرت کتابوں میں تو اس طرح آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نہیں، جو تمھارے اُستاد نے بنایا ہے وہی درست ہے۔ انھوں نے پھر عرض کی کہ حضرت آپ کتاب کو ملاحظہ تو فرمائیں، شیخ صاحب نے جھنجھلا کر کہا ارے تو کتاب کو کیا جائے! ہمارے سامنے کتاب کا نام لیتا ہے! ہم کتابیں دیکھتے دیکھتے خود کتاب بن گئے ہیں۔ ایسے غصّے ہوئے کہ لکڑی سامنے رکھی تھی وہ لیکر اُٹھے، یہ بھاگے، انھیں بھی ایسا جوش تھا کہ دروازہ تک ان کا تعاقب کیا۔

لکھنؤ کے لڑانے اور چمکانے والے غضب تھے۔ آخر مرزا کا عالم شباب تھا اور کمال بھی عین شباب پر تھا کہ جوانی کا بڑھاپے سے معرکہ ہوا، نواب شرف الدولہ میر ضمیر کے بڑی قدردان تھے، اُن سے ہزاروں روپے کے سلوک کرتے تھے، ابتدا میں اُن کے سبب سے اور پھر مرزا کے جوہر کمال کے باعث سے اُن کی بھی قدردانی کرتے تھے۔ ان کی مجلس میں اول مرزا، بعد اُن کے میر ضمیر پڑھا کرتے تھے۔

ایک موقع پر مرزا نے ایک مرثیہ لکھا، جس کا مطلع ہے۔

ع "دستِ خدا کا قوتِ بازو حسین ہے"​

میر ضمیرؔ کے سامنے جب اصلاح کے لئے پیش کیا تو انھیں اس کے نئےخیالات اور طرز بیان اور ترتیب مضامین پسند آئی۔ اسے توجہ سے بنایا اور اسی اثناء میں نواب کے ہاں ایک مجلس ہونے والی تھی۔ رشید شاگرد سے کہا کہ بھئی اس مرثیہ کو ہم اس مجلس میں پڑھیں گے۔ تعطیم کر کے تسلیم بجا لائے اور مرثیہ انھیں کو دے دیا۔

گھر میں آئے تو بعض احباب سے حال بیان کیا، مسودہ پاس تھا، وہ بھی سنایا، کچھ تو یاروں کا چمکانا، کچھ اس سبب سے کہ ذوق و شوق کے پھول ہمیشہ شبنم تعریف کے پیاسے ہیں اور نواب کو خبر پہونچ گئی تھی۔ ادھر کے اشاروں میں انعام کی ہوا آئی، غرض انجام یہ ہوا کہ اُستاد مرثیہ صاف کر کے لے گئے کہ وہی پڑھیں گے۔

بموجب معمول کے اول مرزا صاحب منبر پر گئے اور وہی مرثیہ پڑھا۔ بڑی تعریفیں ہوئیں اور مرثیہ خوب سرسبز ہوا۔ اُستاد کہ ہمیشہ شاگرد کے پڑھنے پر باغ باغ ہوا کرتے تھے اور تعریفیں کر کے دل بڑھاتے تھے، اب خاموش بیٹھے ہیں، کچھ غصّہ، کچھ بیوفائی زمانہ کا خیال، کچھ اپنی محنتوں کا افسوس اور فکر یہ کہ اب میں پڑھوں گا، اور اس سے بڑھ کر کیا پڑھوں گا، جس میں اُستادی کا رتبہ بڑھے نہیں تو اپنے درجہ سے گرے بھی تو نہیں۔ غرض ان کے بعد یہ پڑھے اور کمال کی دستار صحیح و سلامت لے کر منبر سے اُترے، لیکن اس دن سے دل پھر گیا۔ یار لوگوں نے شاگرد کو نقطہ مقابل کر کے بجائے خود اُستاد بنایا، اور وہی صورت ہو گئی کہ ایک مجلس میں دونوں کا اجتماع موقوف ہو گیا، زمانے نے اپنے قاعدہ کے بموجب چند روز مقابلوں سے شاگرد کا دل بڑھایا اور آخر بڑھاپے کی سفارش سے اُستاد کو آرام کی اجازت دی، وہ اپنے حریف میر خلیق کے سامنے گوشہ عزلت کا مقابلہ کرنے لگے اور یہاں میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ کے معرکے گرم ہو گئے۔

دونوں کےکمال نے سخن شناسوں کے ہجوم کو دو حصوں میں بانٹ لیا۔ آدھے انیسئے ہو گئے، آدھے دبیریئے، ان کے کلام میں محاکمہ کرنے کا لطف جب ہے کہ ہر اُستاد کے ۴، ۴، ۵، ۵، سو مرثیے بجائے خود پڑھو اور پھر مجلسوں میں سُن کر دیکھو کہ ہر ایک کا کلام اہل مجلس پر کس قدر کامیاب یا ناکام رہا، بے اس کے مزہ نہیں، میں اس نکتہ پر میر انیسؔ صاحب صفائی، لطف زبان، چاشنی محاورہ، خوبی بندش، حسن اسلوب مناسبت مقام، طرز ادا اور سلسلہ کی ترتیب میں جواب نہیں رکھتے اور یہی رعایتیں ان کی کم گوئی کا سبب تھیں، مرزا دبیر صاحب شوکت الفاظ، مضامین کی آمد اس میں جابجا غم انگیز اشارے، درد خیز کنائے، المناک اور دل گداز انداز جو مرثیہ کی غرض اصلی ہے۔ ان وصفوں میں بادشاہ تھے۔ یہ اعتراض حریفوں کا درست ہے کہ بعض ضعیف روائتیں اور دل خراش مضامین ایسے نظم ہو گئے ہیں جو مناسب نہ تھے، لیکن انسان کی طبیعت ایسی واقع ہوئی ہے کہ جب ایک مقصود کو مدنظر رکھ کر اس پر متوجہ ہوتا ہے تو اور پہلوؤں کا خیال بہت کم رہتا ہے، انھیں ایسی مجلسوں میں پڑھنا ہوتا تھا، جہاں ہزارہا آدمی دوست دشمن جمع ہوتا تھا، تعریف کی بنیاد گریہ و بکا اور لطف سخن اور ایجاد مضامین پر ہوتی تھی۔ کمال یہ تھا کہ سب کو رُلانا اور سب کے منھ سے تحسین کا نکالنا، اس شوق کے ضزبے اور فکر ایجاد کی محویت میں جو قلم سے نکالا جائے، تعجب نہیں نکتہ چینی ایک چھوٹی سی بات ہے، جہاں چاہا دو حرف لکھ دیئے، جب انسان تمام عمر اس میں کھپا دے، تب معلوم ہوتا ہے کہ کتنا کہا اور کیسا کہا۔ ایجاد و اخترع کے لفظ پر ایک لطیفہ یاد آیا کہ اصولِ فن سے متعلق ہے۔ اہل ذوق کے ملاحظہ کے لئے لکھتا ہوں۔

آتشی لطیفہ : مرزا دبیر کی جوانی تھی اور شاعری بھی عین جوانی پر تھی کہ ایک دھوم دھام کا مرثیہ لکھا، اس کا نمودار تمہید سے چہرہ باندھا، رزمیہ و بزمیہ مضامین پر خوب زور طبع دکھایا، تازہ ایجاد یہ کیا کہ لشکر شام سے ایک بہادر پہلوان تیار کر کے میدان میں لائے، اس کی ہیبت ناک صورت بدمہورت آمد کی آن بان، اس کے اسلحہ جنگ ان کے خلاف قیاس مقاویر وزن سے طوفان باندھے، پہلے اس سے کہ یہ مرثیہ پڑھا جائے، شہر میں شہرہ ہو گیا، ایک مجلس قرار پائی، اس میں علاوہ معمولی سامعین کے سخن فہم اور اہل کمال اشخاص کو خاص طور پر بھی اطلاع دی گئی۔ روز معہود پرہجوم خاص و عام ہوا، طلب کی تحریکیں اس اسلوب سے ہوئی تھیں کہ خواجہ آتش باوجود پیری و آزاری کے تشریف لائے، مرثیہ شروع ہوا، سب لوگ بموجب عادت کے تعریفوں کے غل مچاتے رہے، گریہ و بکا بھی خوب ہوا، خواجہ صاحب خاموش سر جھکائے دو زانو بیٹھے جھومتے رہے، مرزا صاحب مرثیہ پڑھ کر منبر سے اُترے، جب دلوں کے جوش دھیمے ہوئے تو خواجہ صاحب کے پاس جا بیٹھے اور کہا کہ حضرت جو کچھ میں نے عرض کیا آپ نے سُنا، فرمایا، ہوں، بھئی سُنا، انھیں اتنی بات پر قناعت کب تھی؟ پھر کہا، آپ کے سامنے پڑھنا گستاخی ہے لیکن آپ نے ملاحظہ فرمایا، انھوں نے فرمایا بھئی سُنا تو سہی مگر میں سوچتا یہ ہوں کہ یہ مرثیہ تھا یا لندھورین (ملک لندھور کی خلاف عقل طاقتیں اور فوق العادت گاؤزوریاں، امیر حمزہ کے قصہ کی شان و شکوہ اس طرح بڑھاتی ہیں کہ رستم و اسفند یار شاہناموں کے صفحوں میں منھ چھپا لیتے ہیں۔) سعدان کی داستان تھی (واہ رے اُستاد کامل اتنے سے فقرہ میں عمر بھر کے لئے اصلاح دے گیا)۔

مرزا صاحب نے ۲۹ محرم ۱۲۹۲ھ کو ۷۲ برس کی عمر میں انتقال کیا۔ اس مدت میں کم سے کم ۳ ہزار مرثیہ لکھا ہو گا، سلاموں، نوحوں اور رباعیوں کا کچھ شمار نہیں، ایک مرثیہ بے نقط لکھا ہے جس کا مطلع ہے۔ ع :

ہم طالعِ ہما مرا وہم رسا ہوا​

اس میں اپنا تخلص بجائے دبیر کے عطارد لکھا ہے، اور کچھ شک نہیں کہ اُن کے ساتھ ہندوستان میں مرثیہ گوئی کا خاتمہ ہو گیا، نہ اب ویسا زمانہ آئے گا اور نہ ویسے صاحبِ کمال پیدا ہوں گے۔